زندگی کا مقصد
ہمارے ای این ٹی کے پروفیسر صاحب نے ایک دن لیکچر کے دوران بہت بڑی بات سمجھائی تھی۔ کہ بیٹا! میرے اور اس کمرے کے باہر کھڑے گارڈ میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ اگر چاہتا تو میں اس کی جگہ پر ہوتا اور وہ میری جگہ پر اس وقت آپ کا لیکچر وہ لے رہا ہوتا۔ یہ سب اللہ کی تقسیم ہے۔ جو اس نے اپنے بندوں میں کی ہے۔ کسی کا کچھ بھی اپنا تھا اور نہ ہے۔ وہ جب چاہے الٹ پھیر کر سکتا ہے۔ تو اپنے ڈاکٹر ہونے یا اپنے کسی بھی عہدے پر ہونے کا کبھی تکبر مت کرنا۔ اور اپنے سے نیچے والے طبقے کے ساتھ عزت سے پیش آنا۔
اس وقت ہم نے اپنے آپ سے بہت بڑے وعدے کیئے لیکن ہاوس جاب اور ٹریننگ میں آنے کے بعد وہ سارے وعدے، آوٹ ڈورز کے رش اور لمبی لمبی ڈیوٹیوں میں دھواں ہو گئے۔
ہسپتال کے آوٹ ڈور میں آنے والا تقریبا ہر مریض، مزدوری کرتا ہے۔ اور جتنا کرایہ لگا کر وہ آوٹ ڈور پہنچتا ہے وہ اس کے دیہاڑی سے کئی گنا ذیادہ ہوتا ہے۔ اور علاج کی امید لیئے، مسیحاوں کے پاس پہنچنے کے بعد؛ اسے کیا ملتا ہے؟ زیادہ تر صرف جھڑکیاں۔
ہمیں کون اس بات کا حق دیتا ہے، کہ اگر کسی مریض کو آپ کی ٹیکنیکل باتین سمجھ نہیں آ رہیں، یا ڈسپنسری کا راستہ سمجھانے پر پتہ نہیں لگ رہا تو ہم اپنا لہجہ تلخ کر لیں اور اس کی کم عقلی پر اس پر چیخیں۔
اس پر ہم "ورک لوڈ" کا عزر پیش کرتے ہیں۔ لیکن کیا ایڈمیشن کے وقت ہم میں سے کسی نے یہ Affidavit سائن کروایا تھا کہ ہم صرف ایک محدود تعداد میں مریض دیکھیں گے اس کے بعد ہمارا پارا چڑھ جائے گا اور ہم انھیں کاٹنے کو دوڑیں گے؟ نہیں۔ اگر اتنا کام نہیں ہوتا تھا تو کسی نے کنپٹی پر بندوق نہیں رکھی تھی کہ ڈاکٹر بنو۔ کچھ اور کر لیتے۔ کہیں آرام دہ محکمے میں جا کر نوکری کرتے۔ کیا ہم ان سے دو بول تمیز سے اور شفقت سے نہیں بول سکتے؟ وہ اتنا کرایہ لگا خر اور سفر کر کے، صرف ہماری جھڑکیاں سننے آتے ہیں؟
ذیادہ تر مریض ہمارے ماں باپ کی عمر کے ہوتے ہیں، کبھی ان کی جگہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کو رکھ کر دیکھیں۔ اور پھر جھڑکیں۔ پھر اونچی آواز میں ڈانٹیں۔ پھر ان کی توہین کریں
آزمایا چھین کر بھی جاتا ہے اور انعام کر کے بھی۔ خدا نے ان سے صحت لے کر، اور ہمیں مسیحائی دے کر آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب؛
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں!
یہ سفید کوٹ بھی ایک آزمائش ہے۔ یہ پوزیشن بھی آزمائش ہے۔ یہ غیر معمولی ذہانت بھی آزمائش ہے۔ اور اس آزمائش پر اگر ہم پورا نہیں اترتے اور تکبر کی حدوں سے دور نکل جاتے ہیں تو ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ اللہ کو قطرے کو دریا کرنے میں، اور دریا کو صحرا کرنے میں پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں لگتی۔
Comments
Post a Comment