کالام کا ایک حسین سفر اور میں
کالام کا ایک حسین سفر اور میں
اکتوبر دو ھزار اُنیس میں گاڑی لی تو ایک آدھ دن اُسی پہ ہاتھ سیدھا کرکے اچانک کالام کا پلان بن گیا۔ وہ بھی بائیک پہ۔ گاڑی کو یہ کہہ کر گھر کے ایک کونے میں سائیڈ لائن لگا دیا کہ بھلے تجھ سے محبت ہے مگر بائیک کے ساتھ پرانی یاری ہے۔ بائیک کو دھو کر خوب چمکا کر رات نو بجے کمرے میں آ گیا اور دیر تک بیڈ کو رلاتا رہا۔ کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں چلا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے بائیک وہی کھڑا رہ گیا۔ ٹوور کا پلان بن جائے تو پھر خوشی کے مارے راتوں کی نیند گُل ہو جاتی ہے۔ اُس رات بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ خوشی کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی۔ صبح نماز کے لئے اٹھا تو موسلادھار قسم کی بارش ہو رہی تھی۔ جتنے شوق سے میں نے بائیک کو صاف کیا تھا اُسی اسپیڈ سے اُس کا بیڑہ غرق ہو چکا تھا۔ سات بجے تک بارش کے تھمنے کا انتظار کیا لیکن بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ چھوٹا بھائی بھی گاؤں سے گاڑی کی خوشی میں اسلام آباد آ گیا تھا کیونکہ گاڑی تو اصل میں اُسی کے لئے لی تھی۔
بھائی کو کہا کہ یار بارش پتہ نہیں کب رکے گی۔ لیکن میرے ٹوور کا ستیا تو ناس کر گئی ہے۔ گاڑی چلانی بھی نہیں آتی اور لائسنس بھی نہیں ہے۔ بھائی نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اتنی تو چلانی آ گئی ہے کہ گزارا کر لیں گے۔ اُس نے تھوڑی سی ہمت بندھائی تو میں نے بھائی کو کہا کہ چل یار کالام چلتے ہیں لیکن اُسے اِن ششکوں کا بالکل شوق نہیں۔ میں جس لیول کا آوارہ گرد ہوں وہ اتنا زیادہ آرام پسند ہے۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور کالام کے سفر پر نکل پڑا۔ پہلی بار اسلام آباد ۔ پشاور موٹروے پر اپنی گاڑی چلانے کا جو مزہ ہے، وہ میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا۔ بارش کی دھیمی دھیمی بوندھیں جب گاڑی کے شیشے پر پڑتی تو ایسا لگتا جیسے بادل میرے گالوں کو چھو رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی بارش میں اپنے پسندیدہ گانے سنتے سنتے جب سوات موٹروے پہ چڑھا تو ایک عجیب سی Feeling تھی۔ انتہائی غربت میں گاڑی لینا اور پھر اپنی ہی گاڑی کو سوات موٹروے کے اوپر چلانا۔ بھئی یہ والا سین Unbayanable ہے۔ میں اگر چاہوں بھی تو لکھ نہیں سکتا۔
تین ٹنل سے ہوتے ہوئے سوات موٹروے کا اختتام ہوا تو پرانے روڈ کے اوپر چڑھ گیا۔ چکدرہ کے آس پاس ایک ہوٹل نظر آیا جس کے پیچھے ایک حسین ندی نما دریا بہہ رہا تھا۔ گاڑی پارک کرکے منہ ہاتھ دھو کر تھوڑا سا موسم انجوائے کیا اور پھر کابلی پلاؤ کا آرڈر دے کر اپنے آرڈر کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد مزیدار قسم کا کابلی پلاؤ میرے سامنے تھا اور میں اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ کابلی پلاؤ کے بعد دودھ پتی نے میرے اب تک کے سفر کو پانچ چاند لگا دئے۔ ہیییییییی۔۔۔ چار چاند ہوتے ہیں یہ پانچواں کہاں سے آ گیا۔۔۔؟ ویسے تو چاند بھی ایک ہی ہے لیکن پتہ نہیں کس نے چار کر دئے۔ خیر
ایک بار پھر اپنی گاڑی Start کی اور اپنے سفر پر نکل پڑا۔ بحرین بازار کراس کرکے بائیں جانب ایک ہوٹل پر نظر پڑی۔ وقت دیکھا تو دوپہر کے سوا دو ہو رہے تھے۔ سوچا ظہر کی نماز پڑھ کر آدھا کپ چائے بھی پی لوں گا۔ وضو کرکے نماز پڑھی تو آدھا کپ چائے کا کہہ کر دائیں بائیں کے مناظر دیکھنے لگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چائے والے نے یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ چائے لے لو۔ میں اُس خوبصورتی میں اتنا گُم ہو گیا تھا کہ اُس لڑکے کی مدھم آواز نے چونکا دیا۔ چائے کے Colour نے بتا دیا کہ کتنی اچھی ہوگی۔ پہلی گھونٹ کے ساتھ اندر سے Ummmmmmmm کی آواز نکلی۔ قدرت کے حسین مناظر سے محظوظ ہوتے ہوئے مزے کی چائے پی اور تھوڑی دیر وہیں بیٹھ کر موسم کے مزے لئے۔ بھئی چائے واقعی اچھی تھی اور اُس سے بھی زیادہ وہ چائے والا اچھا تھا جس نے یہ کہہ کر پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ آپ اکیلے سے کیا پیسے لینے۔ جائیں اللہ آپ کو خیر سے لے جائے۔
ایسے لوگ آج کل نایاب ہو رہے ہیں۔ اگر ایک آدھ مل جائے تو ھم اُسے اچھا رہنے نہیں دیتے۔ اُس کے ساتھ وہ وہ چالیں چلتے ہیں کہ وہ خود ہی ہماری زندگی سے چلا جاتا ہے۔ خدارا ایسے لوگوں پہ تجربے نہ کریں ورنہ یہ بڑی خاموشی کے ساتھ ہماری زندگی سے چلے جاتے ہیں اور یقین کریں کہ ایسے لوگ شکوہ بھی نہیں کرتے۔ اِن کے ہونے کی قدر نہیں ہوتی لیکن اِن کے نہ ہونے کا احساس بہت تکلیف دیتا ہے۔ اگر آپ کی لائف میں ایسے لوگ ہیں تو مبارک ہو آپ خوش قسمت ہیں۔ اِنہیں سنبھال کے رکھیں۔
میں نے مسکرا کر اُس کا شکریہ ادا کیا اور چائے کے پیسے یہ کہہ کر اُسے دے دئے کہ یہ آپ کی روزی روٹی ہے اِس لئے آپ لے لو۔ بس اِسی محبت سے لوگوں کے ساتھ پیش آتے جاؤ اور مسافروں کی خدمت کرتے جاؤ۔ اللہ آپ کو بہت کامیاب انسان بنائے۔ میرے گلے لگ کر کہا کہ کالام میں میرے یار دوست ہیں۔ آپ کے رہنے کا بندوبست کر لوں۔۔۔؟ میں نے ایک بار پھر اُس کا شکریہ ادا کیا اور کالام روانہ ہو گیا۔
عصر کے بعد میرے پاس نہ بیٹھ
مجھ پہ ایک سانولی کا سایہ ہے
سوری شعر یاد آ گیا تھا۔ عصر کے بعد کالام پہنچا تو تھکاؤٹ کی وجہ سے بہت برا حال تھا۔ دل تو کر رہا تھا کہ کمرے میں جا کے سو جاؤں لیکن جیسے میں کمرے میں پہنچا، سامان رکھا تو خیال آیا کہ ابھی تھوڑا سا سستا لیتا ہوں۔ رات کی چاندنی میں کچھ کروں گا۔ تھوڑی دیر لیٹا تو پھر کافی دیر ہو گیی۔ بڑی مشکل سے اٹھ کر مغرب کی نماز پڑھی اور پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر بعد کچھ بےچینی سی محسوس ہوئی۔ کالام بازار ہو۔ ھلکی پھلکی ٹھنڈ ہو۔ رات کی چاندنی ہو اور میں ہوں۔ ایک لمبی سی Walk نہ ہو تو اُس ٹوور کا کیا مزہ آئے گا۔ سامان رکھ کر کمرے کو تالا لگا کر ایک لمبی واک پہ نکل پڑا۔ رات کے ساڑھے دس بجے ایک ہوٹل میں اچھا سا کھانا کھا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ اگلی صبح میں نے مہوڈنڈ جانا تھا۔ مہوڈنڈ کا سفر اپنے آپ میں ایک بہت بڑا Adventure تھا کیونکہ ایک دوست کو جیپ کا کہا تھا اور اُس نے اگلی صبح جیپ میرے حوالے کر دی تھی۔
On my way to Kalam.....
Comments
Post a Comment