خان" لفظ کی حقیقی تاریخ

 "#خان" لفظ کی حقیقی تاریخ:

خان کا لفظ موجودہ زمانے میں اکثر مشرقی ممالک مثلا افغانستان , پاکستان, وسطی ایشیا, ایران, ہندوستان اور ترکی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے. اس لفظ کے بارے میں مختلف علماء اور مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور اپنی رائے پیش کی ہے جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں زکر کیے دیتے ہیں:



نفسینی ڈکشنری کے مولف لکھتے ہیں کہ 

" خان ترک زبان کا لفظ ہے ترکستان و تاتارستان کے بادشاہوں کا لقب ہے جس کے معانی امیر, رئیس اور بیگ کے ہیں


نور اللغات میں خان لفظ کی یہ تعریف بیان ہوئی ہے

" یہ لفظ قدیم ایام میں ترکستان کے بادشاہوں کا لقب تھا لیکن موجودہ زمانے میں امراء و رووساء کے مابین مشہور ہے."


امریکی دائرہ المعارف کے مطابق:

" خان ابتدائی ادوار میں ترکستان میں کاروان یا قافلے کے سربراہ کو کہتے تھے. بعدا یہ لفظ مشرقی ایشیائی ممالک کے سربراہان کے لیے مستعمل رہا."


خان صد فیصد ترکوں کا لقب ہے, اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو خان کا لفظ اولین دفعہ ترک بن یافث کی پانچھویں پشت پر "باقوی خان" کے نام میں ملتا ہے جس کے بعد ان کی اولادیں اپنے نام کے ساتھ خان لگاتی رہیں مثلا النجہ خان, اوغوز خان, قرا خان وغیرہ. ترکوں کے علاوہ تاریخ میں کسی دوسری قوم کے ساتھ خان لفظ کے استعمال کے شواہد نہیں ملتے. یہ لفظ ترکوں کے ساتھ آسیائے میانہ سے نکل کے مفتوح شدہ علاقوں میں پھیلا. 

پانچھویں صدی ہجری میں لکھے گئے کتبوں میں ہمیں قاآن یا خان کے الفاظ ملتے تھے , اسی طرح قاغان فوج میں ایک بلند رتبے کا نام تھا

خان کا لفظ کئی درجات پر مشتمل ہے. 

قاآن

خاقان

کاغان

خان خانان 

خان

چنگیز خان تاریخ میں پہلا فاتح تھا جس نے اپنے نام کے ساتھ قاآن کا لقب لگایا جو کہ عظیم ترین رتبے کی نشانی ہے. بعد میں آنے والے خوانین نے بھی اپنے ساتھ قاآن اور خاقان برقرار رکھا. تیموری زمانے میں بھی خان لفظ ایک پرافتخار لقب تھا جبکہ ایران کی صفوی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے سلاطین بھی اپنے نام کے ساتھ خان لگاتے تھے.

ہندوستان میں بھی خان کا لفظ ظہیر الدین بابر کے ساتھ آیا جس کی قائم کردہ حکومت میں بھی خان کا لفظ عزت کی نشانی تھا اور فوج کے سپہ سالار, وزراء یا شاہی خاندان کے لیے مخصوص تھا.

ہمایوں کے سپہ سالار بیرم خان ترکمن کو خان کا درجہ دیا گیا تھا. وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمایون کی وفات کے بعد کم سن اکبر کے اطالیق ہونے کے ساتھ ساتھ سلطنت مغلیہ کو بھی استحکام بخشا , انکی خدمات کی بدولت انہیں اکبر اپنا والد مانتا تھا اور پیار سے "خان بابا" کہہ کر مخاطب کرتا تھا . بیرم خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے "عبدالرحیم خان خاناں" کو وزارت دی گئی اور رتبے سے نوازا گیا.

مگر افسوس کی بات کے کہ خان کا لفظ موجودہ زمانے میں ترک قوم اپنا خاندانی لقب فراموش کر کے غیروں کے القاب استعمال کر رہی ہیں اور ہمارے القاب دوسری اقوام کے ہاں رائج ہوگیا ہے. ہر گلی میں, ہر شہر, ہر صوبے ہر دکان ہر کارڈ پر آپ کو خان لکھا نظر آتا ہے لیکن وہ ترک نہیں ہوتے. پشتون و پٹھان قوم نے تو خصوصا اسے اپنی پہچان کا زریعہ بنا لیا ہے. پشتون تاریخ میں سو ڈیڑھ سو سال پہلے کے افغانی بادشاہوں نے اس کو نام کا حصہ بنایا. اس کے قبل کہیں بھی افغانوں میں خان کا لفظ نہیں ملتا جبکہ ترکوں میں یہ حضرت نوح ع کی ساتویں پشت سے جاری ہے.

ان خانوں کے بارے میں افغانستان کے ترکمن شاعر عبدالمجید توران لکھتے ہیں


"خان لر گدا بولدی, گدا لر خانخانان

کج فلک نینگ کج لیگیندان دیستیندان

ملت فقیر دوشدی ظالم غولیندان

نادان لر خان بولدی , دانا لر زبون"


ترجمہ (جو خان تھے وہ گدا ہو گئے اور گدا بن گئے خان خانان

کچھ اپنی غلطیاں تھیں کچھ قسمت کا کھیل ہے

ملت فقیر ہوگئی ایسے ظالموں کے ہاتھوں

جب سے عقلمند گم ہوگئے اور نادان خان بن گئے)

تحقیق : از قلم رحمت اللہ ترکمن.

Comments